Orhan

Add To collaction

چاند دیکھکر

وہ اس کا دل پڑھ رہا تھا' وہ صفحے پڑھ رہا تھا اس کے دل کی کتاب کے جو شاید خود اس نے بھی نہ پڑھے تھے۔

" صبا۔۔۔۔ کہاں رہ گئی! افطار کا انتظام کر۔۔۔۔ میرا بیٹا آیا ہے۔۔۔ میری انوشے آئی ہے۔" دادی کی اواز پر وہ برق رفتاری سے اندر بڑھی تھی۔

افطاری میں یہاں سے وہاں تک دستر خوان بچھا تھا۔۔۔۔ وہ تھوڑی سی افطاری کر کے اٹھ گئی۔ ماما نے بات چھیڑ دی۔

" ہم لوگ انوشے کی خاطر آۓ ہیں۔۔۔۔ کرنے کو تو میں اس کا رشتہ وہاں بھی کر سکتی تھی' مگر مجھے شروع سے ایوب ہی پسند تھا اپنی انوشے کے لیے۔ ان کی بات پر ایوب کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔

اس نے "اس" کی تلاش میں ادھر ادھر نظریں دوڑائیں وہ کچن کے دروازے سے چپکی کھڑی تھی' کیا کچھ نہیں تھا ان نظروں میں۔۔۔ وہ ان نظروں کی حدت سے پگھل گئی۔

" انوشے بھی ایوب کو پسند کرتی ہے' وہاں ہم نے ایوب کی تصویر بھی لگا رکھی تھی ' جو کوئی پوچھتا تھا ہم یہی کہتے تھے کہ انوشے کا منگیتر ہے۔" انہوں نے بات جاری رکھی۔

" ہتھیار ڈال دو گی تو کیسی جنگ؟ وہ قابض ہو جاۓ گی اور تم۔۔۔۔ کشتیاں جلا کر جنگ کا اغاز کرو صبا۔۔۔۔ واپسی کا کوئی رستہ نہ چھوڑو۔۔۔ ہاں ان کی واپسی کی ٹکٹ آسانی سے ہو جاۓ گی۔" فریدون اس کی مدد کے بہانے آیا تھا ' لمحہ بھر کو اس کے پاس رکا' ماما کی نظروں نے عجیب انداز سے اس منظر کو دیکھا تھا۔

" ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر صبا کو بھی تو گود لیا تھا' بیٹی بنا کر لاۓ تھے' پہلے اس کے بارے میں کچھ سوچ لیں۔"

" بھابی! ٹھیک ہے میں نے صبا کو گود ضزور لیا تھا' مگر انوشے کے بعد ضرورت نہیں رہی۔۔۔۔ جب انسان کے پاس اپنی چیز آ جاۓ تو وہ ادھار کی یا مانگے کی چیز واپس کر دیتا ہے اور ویسے بھی اصل فائدہ تو آپ لوگوں نے اٹھایا' ملازمہ نہیں رکھنی پڑی۔۔۔ ایسے کل وقتی ملازمہ رکھنی پڑتی تو میں دیکھتا کیسے پوری پڑتی آپ کی۔" وہ بول رہے تھے اور اندر کچھ ٹوٹتا ہی جا رہا تھا' اس نے سہارے کے لیے کچھ پکڑنا چاہا تو ایوب نے اسے تھام لیا ۔۔۔ اس کی شرٹ سے اٹھتی مہک اور فریدون کی باتوں نے دل کی دھڑکنوں کو الگ ہی راہ سجھا دی تھی' اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔۔۔ وہ اسے شانوں سے تھامے اسی کو دیکھ رہا تھا۔

" یعنی! اس کی شادی ہمارے ذمے ہے!" تائی نے حیرت سے پوچھا۔

" مل کر کر لیں گے سب۔۔۔۔ کوئی رشتہ دیکھ لیں۔۔۔۔ اس کے لیے تو کوئی بھی چلے گا اور ویسے بھی بھابی اپنے بیٹوں پر بھی نظر رکھیں۔مجھے تو اس کے لچھن اچھے نہیں لگتےاور پھر کیا پتا کس کا خون ہے۔۔۔؟ نہ ماں کا پتا نہ باپ کا۔۔۔۔ میں تو کہتی ہوں کسی ڈرائیور یا واچ مین سے دو بول پڑھوا کر رخصت کریں۔۔۔ اپکا فریدون بچ جاۓ گا۔۔۔ بہت آگے پیچھے رہتی ہے اس کے۔۔۔۔ میں نے دو گھنٹے میں دیکھ لیااپ چوبیس گھنٹے نظر کے سامنے نہ دیکھ سکیں۔ " وہ زہر اگل رہی تھیں' فریدون کے بارے میں ' اس نے گھبرا کر ایوب کو دیکھا۔ اس کے شانوں پر ایوب کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔

   0
0 Comments